کرامت حضرت خواجہ محمد یوسف سلیمانی چشتی تونسوی علیہ الرحمہ

 


عبد الجبار قمر یوسفی سلیمانی صاحب پیر محل کے ایک سکول میں ہیڈ ماسٹر ہیں۔ حضرت خواجہ مٹھا سائیں کے مرید ہیں بیان کرتے ہیں۔

            کہ میں حضرت خواجہ مٹھا سائیں کا مرید ہوا۔میری عمر 26سال تھی نوجوان تھا، کینسر کا مریض تھا۔ کینسر کی آخری سٹیج تھی۔۔04اپریل 1985کو نشتر ہسپتال میں داخل ہوا۔ 07اپریل کو ڈاکٹروں نے میرا آپریشن کرنا تھا۔سرجن ڈاکٹر نیاز اور ڈاکٹر گل شیر نے بتلایا کہ آپریشن کرنا خطرناک ہے۔ لہٰذا اس کا علاج آپریشن کی بجائے شعاعوں کے ذریعے کرنا پڑے گا۔ اب آپ چانس پر ہیں آپ کی زندگی کے چھ یا سات دن ہیں۔ میں نے وہاں سے حضرت خواجہ مٹھا سائیں ؒ کو خط لکھا اور اپنی بیماری کے متعلق عرض کیا۔ سائیں میرے لیے دعا فرمائیں۔ سائیں نے فرمایا کہ جبار امتحان آگیا ہے پریشان نہیں ہونا۔ ہسپتال میں اتوار کے دن چھٹی تھی میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ تونسہ شریف حضرت خواجہ مٹھا سائیں کی خدمت میں آگیا اور ان کے قدموں میں بیٹھ کر رونے ل
گا۔ خواجہ صاحب نے فرمایا جبار کیوں روتے ہو۔ میں نے عرض کی حضور میرے لیے دعا فرمائیں۔ خواجہ صاحب شیش محل کی اوپری منزل پر تشریف لے گئے۔مجھے میرے بھائی نے سہارا دیا اوراوپری منزل میں خواجہ صاحب کی خدمت اقدس میں لے گیا آپ جس جگہ تشریف فرما تھے وہاں سے روضہ ئ  حضرت    غوث الزماں بالکل سامنے تھا۔ میں وہاں جاکر پھر رونے لگا۔ خواجہ صاحب نے پھر فرمایا کہ جبار تم آج رات یہیں قیام کرو آج تمہارے لیے دعا کروں گا۔ رات وہیں قیام کیا۔ صبح کو حضرت خواجہ مٹھا سائیں ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کو دیکھتے ہی میں پھر زارو قطار رونے لگا۔ میری آنکھوں سے آنسو نہیں رُک رہے تھے۔ آپ نے جلال میں بیٹھے ہوئے تھے چٹکی بجائی فرمایا:جبار!بیماری ختم، بیماری ختم، بیماری ختم۔ تین مرتبہ فرمایا پھر فرمایا جبار اب نہیں رونا۔ چپ ہو جاؤ۔ ہائی ایس کی پچھلی قطار کی تینوں سیٹیں بُک کروالو۔ اس وقت ہائی ایس ویگن میں ایک قطار کی سیٹ پر صرف تین افراد بیٹھتے تھے۔

            پھر فرمایا کہ تم ملتان تک اس سیٹ پر لیٹ کر جانا۔ ہسپتال جا کر چیک کروانا۔ پرسوں آپ کو مکمل چھٹی مل جائے گی۔ اسی دوران مجھے معلوم ہوا کہ خواجہ صاحب نے ایبٹ آباد میں پیر حبیب اللہ شاہ صاحب جن کو حضرت کریم سے خلافت تھی کا عرس مبارک 17شوال کو منعقد ہوتا ہے۔ وہاں تشریف لے جائیں گے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ کاش خواجہ صاحب مجھے بھی ساتھ لے چلتے۔ابھی میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ خواجہ صاحب نے ارشاد فرمایا کہ پرسوں جب تمہیں چھٹی ملے گی۔ تم واپس تونسہ شریف آنا پھر یہاں سے اکٹھے ایبٹ آباد جانا ہے۔ مجھے پانی دم کر کے دیا اور فرمایا کہ تمہیں اب اجازت ہے۔

            میں نے حضرت خواجہ مٹھا سائیں ؒ کے فرمان پر عمل کیا تمام راستہ لیٹ کر سفر کیا اور ملتان پہنچ گیا۔ ملتان میں ڈاکٹر ابرار جاوید کینسر سپیشلسٹ کے ہاں ایڈمٹ تھا۔ جب اس نے میرا معائنہ کیا تو حیران ہوا اور کہا کہ جبار تمہارا کینسر تو لا علاج ہو چکا تھا۔ لیکن اب رپورٹیں یہ کہہ رہی ہیں کہ تمہارا کینسر ختم ہو گیا ہے لہٰذا تمہیں پرسوں چھٹی ہے۔

 گفتہ    او    گفتہ    اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

             ڈاکٹر کی یہ بات سن کرآپ کی ذات پر، آپ کی ولایت پر، آپ کی نگاہ اور مشاہدے پر میرا ایمان لوہے کی طرح مضبوط ہو گیا کہ کس طرح اللہ نے اپنے اولیاء کی زبان میں اختیار رکھ دیا ہے۔ جو کچھ فرماتے ہیں وہ ہو جاتا ہے۔

            اسی دوران میں نے اپنے دل میں منت مانی تھی کہ میں لنگر کے لیے ایک عدد بکرا دوں گا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ بکرا لے کر میں خود آتااور خواجہ صاحب کے ساتھ ایبٹ آباد بھی جانا تھا۔میں ملتان سے اپنے گھر ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچا اور وہاں پہنچ کرمیری نیت تبدیل ہو گئی۔ میں نے بکرا اپنے ایک عزیز کو دیا اور کہا کہ تم یہ بکرا لے کر خواجہ صاحب کی خدمت میں پہنچو اور ان کو میری طرف سے پیش کرو اگر وہ میرے متعلق پوچھیں تو عرض کر دینا کہ اس کی طبیعت خراب ہے۔

            اپنے عزیز کو میں نے یہ بات بتلادی کہ میں نے خواجہ صاحب کے ساتھ میں نے ایبٹ آباد جانا تھا مگر وہ پہاڑی سفر ہے اور میں کمزوری میں مبتلا ہوں پہاڑوں پر نہیں چڑھ سکوں گا۔ لہٰذا خواجہ صاحب کوعرض کرنا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ میرا عزیز تونسہ شریف پہنچا، بکرا خواجہ صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ اسی وقت خواجہ صاحب نے وہ بکرا اپنے خادموں سے ذبح کراوایا اور گوشت تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔ جب گوشت تقسیم ہو گیا تو حضرت خواجہ مٹھا سائیں ؒ نے فرمایا کہ جبار کدھر ہے۔ میرے عزیز نے جواب دیا کہ حضور اس کی طبیعت خراب ہے۔ آپ نے جلال میں ارشاد فرمایا کہ اس کی طبیعت خراب نہیں ہے، وہ پہاڑوں سے ڈر رہا ہے۔ اسے جا کر کہہ دینا کہ میں ایبٹ آباد جاؤں نہ جاؤں مگر جبار ضرور ایبٹ آباد جائے۔

            میرا عزیز جب واپس لوٹا تو کہنے لگا کہ تم نے مجھے خواجہ صاحب کے سامنے شرمندہ کروادیا۔ وہ تو تمہارے دلوں کے بھید کو بھی جانتے تھے اور تمہارے تمام معاملات بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے حکم دیا ہے کہ میں ایبٹ آباد جاؤں نہ جاؤں جبار کو ایبٹ آباد جانا پڑے گا۔

            عبدالجبار قمر یوسفی سلیمانی فرماتے ہیں کہ آپ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے میں پندرہ دن کے لیے ایبٹ آباد گیا تھا۔ جس سے میری صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔

             وہ دن ہے اور آج ان کے وصال کو 28سال ہو چکے ہیں مگر الحمد للہ میں آپ کے سامنے موجود ہوں جس کی عمر ڈاکٹروں نے چھ، سات دن مقرر کر دی تھی۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog